.... تشنہ یاد .....
میری پہلی نظم حاضر ہے .. احباب کی آراء کا انتظار رہیگا
....
---------------------------------------------------------
تشنہ یاد
کچھ واقعے ہوتے ہیں عیاں سے نہ نہاں سے
اس ذہن میں پھرتے ہیں مگر بن کے دھواں سے
کیا ایسا عجب تجربہ تم کو بھی ہوا ہے؟
اک یاد ہو دھندلی جو ادا ہو نہ زباں سے!
لو تم کو سناتا ہوں مرے ساتھ ہوا کیا!
اک نغمے کی روداد جو بڑھ کر ہے بیاں سے
اُس شام ٹہلتا ہوا میں گاؤں سے نکلا
اور گانے کی آواز سنی ایک مکاں سے
آواز تھی پرسوز ، حسیں گیت، جواں دھن
اور مستی کا عالم وہ کہ باہر ہے بیاں سے
اس گیت سے مسحور زمیں اور سماوات
اک سحر کہ الجھا دے برہمن کو بتاں سے
کچھ رنگ وہاں سے بھی تھے آواز میں شاید
بھنورے زرِ گل لے کے نکلتے ہیں جہاں سے!
وہ گیت وہ آواز مری روح پہ چھائی
بے خود تھا میں، لگتا تھا کہ ہوں اور زماں سے!
اس ظرفِ سخن ، حسن ِ سماعت سے بھی پوچھو!
کیا ایسے سنے تھے کبھی الفاظ زباں سے؟
کہنے کو تو اب ہوش ہے، لگتا ہے مگر یوں
باقی ہے ابھی خواب ، وہ لمحے ہیں رواں سے !
اک طرفہ تماشہ ہے کہ اب یاد نہیں کچھ
اس گیت سے، جو حسن میں بڑھ کر تھا بتاں سے
صد حیف کہ میں بول وہ سب بھول گیا ہوں!
الفاظ، جو تاثیر میں بڑھ کر تھے بیاں سے
دستک، کبھی آہٹ، کوئی جھونکا، کبھی خوشبو
اس کے ہی اشارے ہیں، گزرتا ہے گماں سے
الفاظ تو مانوس تھے اور ذہن میں میرے
رہ رہ کے چمکتے ہیں، مگر دور زباں سے
کوشش تو بہت کی ہے مگر جوڑ نہ پایا
اب بول وہ بھولے ہوئے میں لاؤں کہاں سے
اس بھولے ہوئے گیت نے، اس یاد نے چھوڑی
اک تشنگی ایسی کہ جو باہر ہے بیاں سے
کاغذ پہ قلم سے بھی نہ تحریر میں آیے
واپس نہ ہوں بولے ہوۓ الفاظ زباں سے
صفحات پہ لکھ ڈالوں میں اس گیت کو، شاید
قرطاس پہ آ جائے نکل کر وہ گماں سے
ہر لفظ کو امیّد سے لکھ کر میں یہ چاہوں
کاشف ہو وہ اسرار عیاں میری زباں سے
سید کاشف
No comments:
Post a Comment