Sunday, August 5, 2018



"رات کو میرے جسم سے لگ کر کتنے قصے کہتی ہے
دن بھر میرے بستر پر جو وحشت سوئی رہتی ہے "

جنید آزرؔ

ایسا ہے کہ سینے میں سلگتی ہیں خراشیں
اب سانس بھی ہم لیں گے تو اچھا نہ کریں گے

نام ہونٹوں پہ ترا آئــــے تو راحت سی مِلے
تُو تسلی ہے، دلاسہ ہے، دُعا ہے، کیا ہے ؟

اک خاص حـــد پہ آگئـــی جب تیری بے رُخـی
نـام اُس کا ھم نے گردشِ ایام رکـــھ دیا

ہم سے کیا پوچھتے ہو زندگی کے بارے میں
اجنبی کیا جانتا ہے اجنبی کے بارے میں

جاتے ہی اُن کے سیف شبِ غم نے آ لیا
رُخصت ہوا وہ چاند، ستارے چلے گئے

ﻟﻮ ﺁﺝ ﮬﻢ ﻧﮯ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﺌﮯ ﺭﺍﺑﻄﮯ ﺗﻤﺎﻡ
ﻟﻮ ﺁﺝ ﮬﻢ ﻧﮯ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺯﺣﻤﺖ ﺗﻤﺎﻡ ﮐﯽ


وہ یاد بھی اب کے آیا ھے اور جاگ اٹھی ھے خواہش بھی
تازہ درد اور سرد ہوا ، اور سال کی پہلی بارش بھی

موت کیا ہے اک لفظ بے معنی
جس کو مارا حیات نے مارا

No comments:

Post a Comment