Thursday, August 23, 2018

تشنہ یاد



Related image

 
.... تشنہ یاد .....
میری پہلی نظم حاضر ہے .. احباب کی آراء کا انتظار رہیگا ....

---------------------------------------------------------
تشنہ یاد

کچھ واقعے ہوتے ہیں عیاں سے نہ نہاں سے
اس ذہن میں پھرتے ہیں مگر بن کے دھواں سے

کیا ایسا عجب تجربہ تم کو بھی ہوا ہے؟
اک یاد ہو دھندلی جو ادا ہو نہ زباں سے!

لو تم کو سناتا ہوں مرے ساتھ ہوا کیا!
اک نغمے کی روداد جو بڑھ کر ہے بیاں سے

اُس شام ٹہلتا ہوا میں گاؤں سے نکلا
اور گانے کی آواز سنی ایک مکاں سے

آواز تھی پرسوز ، حسیں گیت، جواں دھن
اور مستی کا عالم وہ کہ باہر ہے بیاں سے

اس گیت سے مسحور زمیں اور سماوات
اک سحر کہ الجھا دے برہمن کو بتاں سے

کچھ رنگ وہاں سے بھی تھے آواز میں شاید
بھنورے زرِ گل لے کے نکلتے ہیں جہاں سے!

وہ گیت وہ آواز مری روح پہ چھائی
بے خود تھا میں، لگتا تھا کہ ہوں اور زماں سے!

اس ظرفِ سخن ، حسن ِ سماعت سے بھی پوچھو!
کیا ایسے سنے تھے کبھی الفاظ زباں سے؟

کہنے کو تو اب ہوش ہے، لگتا ہے مگر یوں
باقی ہے ابھی خواب ، وہ لمحے ہیں رواں سے !

اک طرفہ تماشہ ہے کہ اب یاد نہیں کچھ
اس گیت سے، جو حسن میں بڑھ کر تھا بتاں سے

صد حیف کہ میں بول وہ سب بھول گیا ہوں!
الفاظ، جو تاثیر میں بڑھ کر تھے بیاں سے

دستک، کبھی آہٹ، کوئی جھونکا، کبھی خوشبو
اس کے ہی اشارے ہیں، گزرتا ہے گماں سے

الفاظ تو مانوس تھے اور ذہن میں میرے
رہ رہ کے چمکتے ہیں، مگر دور زباں سے

کوشش تو بہت کی ہے مگر جوڑ نہ پایا
اب بول وہ بھولے ہوئے میں لاؤں کہاں سے

اس بھولے ہوئے گیت نے، اس یاد نے چھوڑی
اک تشنگی ایسی کہ جو باہر ہے بیاں سے

کاغذ پہ قلم سے بھی نہ تحریر میں  آیے
واپس نہ ہوں بولے ہوۓ الفاظ زباں سے

صفحات پہ لکھ ڈالوں میں اس گیت کو، شاید
قرطاس پہ آ جائے نکل کر وہ گماں سے

ہر لفظ کو امیّد سے لکھ کر میں یہ چاہوں
کاشف ہو وہ اسرار عیاں میری زباں سے

سید کاشف

Tuesday, August 21, 2018

مِری یاد سے جنگ فرما رہے ہیں


بادشاہوں کی معطر خواب گاہوں میں کہاں
وہ مزا جو بھیگی بھیگی گھاس پر سونے میں ہے

مطمئن لوگوں کی اجلی مسکراہٹ میں کہاں
لطف جو اک دوسرے کو دیکھ کر رونے میں ہے

"احمد ندیم قاسمی"

 
اکیلے ہیں وہ، اور جھنجلا رہے ہیں

مِری یاد سے جنگ فرما رہے ہیں

خماربارہ بنکوی



Sunday, August 19, 2018



جس رات کے خواب آئے وہ خوابوں کی رات آئی
شرما کے جُھکی نظریں ہونٹوں پہ وہ بات آئی
پیغام بہاروں کا، آخر مِرے نام آیا
پُھولوں نے دُعائیں دیں، تاروں کا سلام آیا
آپ آئے تو محفل میں، نغموں کی برات آئی

جس رات کے خواب آئے وہ خوابوں کی رات آئی
یہ مہکی ہُوئی زُلفیں، یہ بہکی ہُوئی سانسیں
نیندوں کو چُرالیں گی یہ نیند بھری آنکھیں
تقدیر مِری جاگی، جنّت مِرے ہاتھ آیا
جس رات کے خواب آئے وہ خوابوں کی رات آئی

چہرے پہ تبسّم نے اِک نُور سا چمکایا
کیا کام چراغوں کا ، جب چاند نکل آیا
جو آج دُلھن بن کے پہلو میں حیات آئی
جس رات کے خواب آئے وہ خوابوں کی رات آئی
علی سردارجعفری

Sunday, August 5, 2018



"رات کو میرے جسم سے لگ کر کتنے قصے کہتی ہے
دن بھر میرے بستر پر جو وحشت سوئی رہتی ہے "

جنید آزرؔ

ایسا ہے کہ سینے میں سلگتی ہیں خراشیں
اب سانس بھی ہم لیں گے تو اچھا نہ کریں گے

نام ہونٹوں پہ ترا آئــــے تو راحت سی مِلے
تُو تسلی ہے، دلاسہ ہے، دُعا ہے، کیا ہے ؟

اک خاص حـــد پہ آگئـــی جب تیری بے رُخـی
نـام اُس کا ھم نے گردشِ ایام رکـــھ دیا

ہم سے کیا پوچھتے ہو زندگی کے بارے میں
اجنبی کیا جانتا ہے اجنبی کے بارے میں

جاتے ہی اُن کے سیف شبِ غم نے آ لیا
رُخصت ہوا وہ چاند، ستارے چلے گئے

ﻟﻮ ﺁﺝ ﮬﻢ ﻧﮯ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﺌﮯ ﺭﺍﺑﻄﮯ ﺗﻤﺎﻡ
ﻟﻮ ﺁﺝ ﮬﻢ ﻧﮯ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺯﺣﻤﺖ ﺗﻤﺎﻡ ﮐﯽ


وہ یاد بھی اب کے آیا ھے اور جاگ اٹھی ھے خواہش بھی
تازہ درد اور سرد ہوا ، اور سال کی پہلی بارش بھی

موت کیا ہے اک لفظ بے معنی
جس کو مارا حیات نے مارا